سید حسین طباطبائی قمی

ویکی شیعہ سے
حاج آقا حسین قمی
کوائف
مکمل نامسید حسین طباطبائی قمی
تاریخ ولادت12 رجب 1282 ھ
آبائی شہرقم
تاریخ وفات14 ربیع الاول 1366 ھ
مدفنروضہ حضرت امیر (ع)، نجف
علمی معلومات
اساتذہشیخ عبد المحسن مدرس ریاضی، میرزا ابو الحسن کرمانشاہی، آخوند محمد کاظم خراسانی، میرزا محمد حسن آشتیانی، سید محمد کاظم طباطبایی یزدی و ۔۔۔
شاگردمحمد حسین صدقی مازندرانی، غلام حسن محامی بادکوبہ ای، محمد علی کاظمی خراسانی، سید محمد موسوی لنکرانی، آقا بزرگ اشرفی شاہرودی و ۔۔۔
تالیفاتحاشیہ بر عروة الوثقی (از اول مسائل تقلید تا بخشی از احکام نماز)، ہدایہ الانام فی المسائل الحلال و الحرام «رسالہ الحکام»، و ۔۔۔
خدمات
سماجیمرجع تقلید،


سید حسین طباطبایی قمی، (1282۔1366 ھ) حاج آقا حسین قمی کے نام سے مشہور، شیعہ فقیہ اور مجتہد ہیں جو آیت اللہ سید ابوالحسن اصفہانی کی وفات کے بعد تین ماہ تک مرجع تقلید رہے۔ انہوں نے رضا خان (شاہ ایران) کے اقدامات پر اعتراضات کئے تو انہیں ایران سے عراق جلا وطن کر دیا گیا۔ رضا خان کی حکومت کی طرف سے ان کی گرفتاری عوام کے جمع ہونے اور مسجد گوہرشاد کے واقعہ کے رونما ہونے کا سبب بنی۔

سوانح حیات و تعلیم

سید حسین 12 رجب 1282 ھ میں قم میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم قم کے ایک مکتب میں حاصل کی۔ اس کے بعد علوم دینی کے مقدمات نحو، صرف، منطق کی تعلیم حاصل کی اور پھر آگر کی تعلیم کے لئے تہران چلے گئے۔ معالم، قوانین، شرح لمعہ، رسائل اور مکاسب جیسی کتابیں وہاں حوزہ علمیہ کے اساتید سے پڑھیں۔ 22 برس کی عمر میں حج بیت اللہ کے لئے مکہ و مدینہ کا سفر کیا۔ واپسی پر نجف گئے اور وہاں آیت اللہ میرزا محمد حسن شیرازی کے درس میں شرکت کی۔ نجف میں دو سال قیام کرنے کے بعد سن 1306 ھ میں واپس تہران آ گئے۔ 5 سال تک تہران میں تحصیل علم میں مشغول رہنے کے بعد 1321 ھ میں ایک بار پھر عراق کا سفر کیا اور وہاں سامرا میں آیت اللہ میرزا محمد حسن شیرازی کے دروس میں حاضر ہوئے۔ 10 سال سامرا میں قیام کیا، استاد ان پر خاص توجہ فرماتے تھے اور احتیاط کے مسائل میں اپنے مقلدین کو ان کی طرف رجوع کرنے کو کہتے تھے۔

مشہد کی عوام کے عالم دین بھیجنے کی درخواست پر میرزا محمد حسن شیرازی نے انہیں جانے کا مشورہ دیا اور وہ مشہد کے لئے روانہ ہو گئے۔ حاج حسین آقا نے نجف و سامرا میں اپنے تمام اساتید سے اجازہ اجتہاد حاصل کیا تھا اور سید مرتضی کشمیری سے اجازہ روایت اخذ کیا تھا۔[1]

اساتید

شاگرد

حاج آقا حسین قمی شاگردوں کے ہمراہ
  • سید زین العابدین کاشانی حائری
  • محمد رضا جرقویہ ای اصفہانی
  • محمد حسین صدقی مازندرانی
  • غلام حسن محامی بادکوبہ ای
  • محمد علی کاظمی خراسانی
  • یوسف بیارجمندی شاہرودی
  • سید محمد موسوی لنکرانی
  • آقا بزرگ اشرفی شاہرودی
  • سید مہدی طباطبایی قمی
  • سید حسن طباطبایی قمی
  • سید صدر الدین جزایری
  • سید حسین موسوی نسل
  • حسین علی راشد تربتی
  • ہادی حائری شیرازی
  • علی توحیدی بسطامی
  • محمد علی سرابی
  • احمد مدرس یزدی
  • عباس علی اسلامی
  • کاظم دامغانی
  • مجتبی قزوینی
  • فاضل قفقازی
  • سید حسن موسوی بجنوردی
  • ہاشم قزوینی
  • عباس تربتی
  • مہدی حکیم۔[3]

تالیفات

  • حاشیہ بر عروة الوثقی (از اول مسائل تقلید تا بخشی از احکام نماز)
  • ہدایہ الانام فی المسائل الحلال و الحرام رسالہ الاحکام
  • الذخیره الباقیہ فی العبادات و المعاملات
  • حاشیہ بر رسالہ ربائیہ رضاعیہ
  • حاشیہ بر رسالہ ارث و نفقات
  • حاشیہ بر صحہ المعاملات
  • حاشیہ بر مجمع المسائل
  • منتخب الاحکام
  • مختصر الاحکام
  • طریق النجات
  • ذخیره العباد
  • مناسک حج۔[4]

مرجعیت

حاج آقا حسین قمی نے مشہد میں وارد ہونے کے بعد نماز جماعت کے ذریعہ عوام سے رابطہ بر قرار کیا اور ان کے سوالوں کے جوابات کے ساتھ ساتھ محرومین و مستضعفین کی دست گیری کرنے لگے۔ حوزہ علمیہ کی زعامت و سرپرستی کی ذمہ داری سنبھالی اور طلاب علوم دینی کے امور حل کے علاوہ اپنے گھر میں ان کے لئے فقہ و اصول کے دروس کا سلسلہ بھی جاری کیا۔ انہوں نے توضیح المسائل دینے اور مرجعیت کی ذمہ داری سے کنارہ کشی اختیار کرنی چاہی لیکن دین دار طبقہ کے بیحد اصرار اور رجوع کرنے پر ان کی فارسی کی توضیح المسائل سن 1351 ھ میں طبع ہوئی اور اس کے بعد باقاعدہ ان کی مرجعیت کا آغاز ہو گیا۔[5]

وہ رضا خان کے ضد مذہبی اقدامات پر ہمیشہ سخت اعتراض کرتے تھے۔ آخر کار مسجد گوہر شاد کے واقعہ کے بعد پہلوی حکومت نے انہیں کچھ عرصہ تہران میں نظر بند کرنے کے بعد سن 1354 ھ میں عراق جلا وطن کر دیا۔ اسی وجہ سے اس کے بعد سے ان کی مرجعت کربلا میں منتقل ہو گئی۔ ان کے وجود کے سبب حوزہ علمیہ کی عام حالت میں تبدیلی رونما ہو گئی اور درس و مباحثہ کے سلسلہ نے رونق اختیار کر لی۔ انہوں نے حوزہ علمیہ اور عوام کی زعامت و سرپرستی اور امور مرجعیت کے ساتھ ساتھ تدریس اور طلاب کی تربیت کی ذمہ داری بھی اپنے ذمہ لی اور فقہ و اصول کے دروس خارج کے تدریس کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ آیت اللہ سید ابو الحسن اصفہانی کے انتقال کے بعد انہوں نے 11 سال کے بعد کربلا کو ترک کرکے نجف اشرف کا رخ کیا اور وہاں کے مجتہدین نے مرجعیت کے امور کو ان کے حوالے کر دیا۔[6][7]

ان کی مرجعیت کا زمانہ بہت کوتاہ رہا اور چند ماہ کے بعد ان کی وفات ہو گئی۔ آیت اللہ سید محمد ہادی میلانی نقل کرتے ہیں: حقیر حرم امام حسین (ع) کی زیارت سے مشرف ہوا تو وہاں دیکھا کہ حاج آقا حسین قمی بالائے سر بیٹھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے میری طرف اشارہ کیا تو میں ان کے قریب گیا۔ انہوں نے عرض کیا: دینی زعامت و مرجعیت آیت اللہ سید ابو الحسن اصفہانی کے بعد میرے سپرد ہوئی اور میں ڈرتا ہوں کہ اس سے میرے دین کو نقصان نہ پہچے لہذا میں دعا کرتا ہوں تم آمین کہو: پروردگارا اگر یہ زعامت میرے دین کے لئے مضر ہے تو، تو میری جان لے لے اس کے بعد انہوں نے اس قدر گریہ کیا کہ زمین ان کے آنسووں سے تر ہو گئی۔[8]

سیاسی فعالیت

رضا خان کی حکومت میں اس کے اقدامات نے علماء کو اعتراض پر مجبور کیا اور حاج آقا حسین قمی اس کی حکومت کے خلاف کھڑے ہو گئے۔ ایک جلسہ میں جو مشہد کے علماء کی معیت میں ان کی گھر پر منعقد ہوا۔ اس میں انہوں نے ملک کے موجودہ حالات سے بیحد متاثر ہو کر گریہ کیا اور کہا:

آج اسلام کو قربانی دینے والوں کی ضرورت ہے لہذا لوگ قیام کریں۔

آخر میں علماء یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ آیت اللہ قمی رضا خان کے ضد دینی اقدامات پر اعتراض جتانے کے لئے تہران جا کر اس سے بات کریں۔ انہوں نے اپنے آخری درس میں کہا:

میرا ماننا یہ ہے کہ اگر ضد مذہب اقدامات کو روکنے کے سلسلہ میں ہزاروں افراد، جن میں حاج آقا حسین قمی بھی شامل ہو، کی جان بھی چلی جائیں تو ایسا کرنا اہمیت رکھتا ہے۔

ان کے تہران کے لئے حرکت کرنے سے پہلے علماء کا ایک گروہ ان سے سوال کرتا ہے کہ شاہ سے ملاقات میں آپ اس سے کیا چاہیں گے؟

جواب وہ کہتے ہیں کہ پہلے تو اس سے درخواست کروں گا کہ وہ اپنے غیر اسلامی کاموں سے ہاتھ کھینچ لے لیکن اگر وہ نہیں مانا تو اس کا گلا گھونٹ دوں گا۔[9]

گرفتاری

واقعہ مسجد گوہرشاد

آیت اللہ قمی تہران میں وارد ہونے کے بعد شہر ری گئے اور وہاں باغ سراج الملک میں قیام کیا۔ تہران والے کثرت سے ان سے ملاقات کے لئے آنے لگے تو پہلوی حکومت نے ان کی رہائش کا محاصرہ کر لیا۔ اس مرجع تقلید کی گرفتاری کے ساتھ حکومت کو عوامی اعتراضات کا خاص طور پر مشہد میں سامنا کرنا پڑا۔ لوگ حرم اور مسجد گوہرشاد میں جمع ہوتے اور خطباء و واعظین کی باتیں سنتے۔ روز بہ روز اعتراضات کی شدت میں اضافہ ہونے لگا۔ یہاں تک کہ آخر میں 14 ربیع الثانی کو حکومت کے کارندوں نے مسجد گوہر شاد میں دھرنے پر بیٹھے علماء اور عوام الناس پر حملہ کرکے انہیں قتل کرنا شروع کر دیا۔ مسجد گوہر شاد میں قتل عام اور تشدد کے بعد حکومت نے انہیں ایران سے عراق طلا وطن کر دیا۔[10]

فتوائے جہاد

حوزہ علمیہ کربلا میں قیام کے دوران جنگ جہانی دوم میں عراق پر قبضہ پر انہوں نے عراق میں موجود دوسرے عراقی و ایرانی علماء کے ساتھ مل کر ان کے خلاف جہاد کا فتوی صادر کیا اور ان سے مقابلہ کا حکم دیا۔ حاج آقا حسین قمی نے رضا شاہ کی حکومت کے سقوط کے ساتھ ہی اپنی آٹھ سالہ جلا وطنی کو ختم کیا اور سن 1322 میں مشہد لوٹ آئے۔ انہوں نے حکومت سے چاہا کہ بے حجابی و مختلط مدارس کا نظام ختم کیا جائے، نماز جماعت، درس قرآن، مدارس میں دینی علوم کی تدریس اور حوزات علمیہ کو آزاد کیا جائے، عوام کے کمزور طبقہ سے اقتصادی فشار میں کمی اور ائمہ بقیع کے قبور کی تعمیر کی کوشش جیسے مطالبات تسلیم کئے جائیں۔ اگر حکومت نے یہ مطالبات قبول نہیں کئے تو وہ مسلحانہ قیام کا حکم دے دیں گے۔ ان کی دھمکی اور عوام کی حمایت سبب بنی کہ حکومت ان کے مطالبات کو تسلیم کر لے۔[11]

وفات

حاج آقا حسین قمی کا انتقال آیت اللہ سید ابو الحسن اصفہانی کی وفات کے تین ماہ کے بعد سن 1366 میں نجف اشرف میں ہوا اور حرم امام علی (ع) میں انہیں دفن کیا گیا۔

حوالہ جات

  1. گلشن ابرار، ج۲، ص۵۹۱.
  2. گلشن ابرار، جلد دو، ص ۵۹۱.
  3. گلشن ابرار، جلد دو، ص ۵۹۲.
  4. گلشن ابرار، جلد دو، ص ۵۹۴.
  5. پورتال اہلبیت (ع).
  6. گلشن ابرار، جلد دو، ص ۵۹۲.
  7. پورتال اہل بیت (ع).
  8. افق حوزه - ۱۸ دی ماه ۱۳۹۲شماره ۳۸۱. بنقل از پایگاه اطلاع رسانی حوزه.
  9. افق حوزه - ۱۸ دی ماه ۱۳۹۲شماره ۳۸۱. بنقل از پایگاه اطلاع رسانی حوزه.
  10. افق حوزه - ۱۸ دی ماه ۱۳۹۲شماره ۳۸۱. بنقل از پایگاه اطلاع رسانی حوزه.
  11. سایٹ تورجان

مآخذ

  • گلشن ابرار، جلد دو، نشر معروف، قم ۱۳۸۵
  • افق حوزه - ۱۸ دی ماه ۱۳۹۲، شماره ۳۸۱. بہ نقل از پایگاه اطلاع رسانی حوزه
  • پورتال اہل بیت (ع)