آصف بن برخیا

ویکی شیعہ سے
آصف بن برخیا
کوائف
نامآصِف بن بَرخیا بن سمعیا
شہرتاللہ کے اسم اعظم کا علم، ملکہ سبأ کا تخت اٹھا لانا
مشہور اقاربحضرت سلیمان
سکونتبیت المقدس
علمی معلومات
دیگر معلومات


آصِف بن بَرخیا بن سمعیا[1] حضرت سلیمان (نبی) کے وصی تھے[2] جن کو اسم اعظم کا علم دیا گیا تھا۔[3] ان کا نام ناطورا بهی ذکر کیا گیا ہے۔[4] مورخین آصف بن برخیا کو حضرت سلیمان کا خالہ زاد [5] یا ان کا بهانجا [3] قرار دیتے ہیں- اسی طرح آصف بن برخیا حضرت سلیمان کے دوست[6]، وزیر[3] اور کاتب [5] بھی تھے۔

حضرت سلیمان نے عمر کے آخری ایام میں اللہ کے حکم سے آصف بن برخیا کو اپنا وصیّ مقرر کیا اور مواریث انبیاء، نور اور حکمت ان کے سپرد کر دیا-[7] آصف نے بھی اللہ کے حکم سے اپنی وفات کے وقت جو بھی ان کے پاس تھا اسے اپنے فرزند "صفوراء" کے حوالے کیا اور ان کو اپنا وصی بنایا-[8] البتہ بعض روایات کی بنا پر آصف بن برخیا نے اپنے بعد حضرت زکریا کو اپنا وصی بنایا تھا-[2]

آصف کے بارے میں نقل ہوا ہے کہ وہ اسم اعظم کے مالک تھے اور جب بهی دعا کرتے تھے تو ان کی دعا قبول ہوتی تهی-[6] حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے نقل ہوا ہے کہ اسم اعظم کے 73 حرف ہیں ان میں سے آصف بن برخیا کو صرف ایک حرف کا علم دیا گیا تها-[9]

بعض اسناد کے مطابق حضرت سلیمان کی وفات کے بعد ابلیس نے یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ حضرت سلیمان نے ایسی حکومت سحر اور جادو کے ذریعہ حاصل کی تهی، ایک حربہ استعمال کیا وہ یہ کہ ابلیس نے سحر و جادو کی ایک کتاب لکهی اور اس کی جلد پر لکھا کہ یہ وہ علوم ہیں جنہیں آصف بن برخیا نے سلیمان بادشاہ کے لئے لکھے ہیں-[10]

آصف اور ملکہ سبأ کا تخت

قرآنی آیات کے مطابق جب حضرت سلیمان نے ملکہ سبا کا شاہی تخت منگوانے کا ارادہ کیا،[11] تو ایک جن نے کہا کہ میں آپ کے کھڑے ہونے سے پہلے اس تخت کو یہاں لے آؤنگا-[12] ایک اور شخص جن کو کتاب کا علم دیا گیا تها، نے کہا میں پلک جھپکنے سے پہلے تخت کو حاضر کرونگا اور اس نے یہ ‌کام انجام دے دیا-[13] قرآن مجید نے اس فرد کا نام نہیں لیا ہے۔ لیکن مشہور نظریے کے مطابق مفسرین اس شخص کو آصف بن برخیا سمجھتے ہیں-[6] اسی طرح بعض مفسرین اس شخص کو حضرت سلیمان [14] اور بعض ان کو حضرت خضر قرار دیتے ہیں-[15]

حوالہ جات

  1. مجلسی، بحار الأنوار، ۱۴۰۳ھ، ج۳۸، ص۵۵۔
  2. 2.0 2.1 شیخ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، ۱۴۱۳ھ، ج۴، ص۱۷۶۔
  3. 3.0 3.1 3.2 طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۷، ص۳۴۹۔
  4. ابن حبیب، المحبر، بیروت، ص۳۹۲۔
  5. 5.0 5.1 ابن ندیم، الفہرست، ۱۴۱۷ھ، ص۴۳۰۔
  6. 6.0 6.1 6.2 فخر رازی، مفاتیح الغیب، ۱۴۲۰ھ،‌ ج۲۴، ص۵۵۶۔
  7. مسعودی، اثبات الوصیۃ، ۱۳۸۴ش، ص۷۵۔
  8. مسعودی، اثبات الوصیۃ، ۱۳۸۴ش، ص۷۶۔
  9. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۱، ص۲۳۰۔
  10. قمی،‌ تفسیر القمی، ۱۴۰۴ھ، ج۱، ص۵۵۔
  11. سورہ نمل، آیہ۳۸۔
  12. سورہ نمل، آیہ۳۹۔
  13. سورہ نمل، آیہ۴۰۔
  14. فخر رازی، مفاتیح الغیب، ۱۴۲۰ھ،‌ ج۲۴، ص۵۵۷۔
  15. فضل الله سے منقول، من وحی القرآن، ۱۴۱۹ھ، ج۱۷، ص۲۰۷۔

مآخذ

  • ابن حبیب، المحبر، تحقیق ایلزۃ لیختن شتیتر، بیروت، دارالآفاق الجدیدۃ، بے تا۔
  • ابن ندیم بغدادی، محمد بن إسحاق، الفہرست، بیروت، دارالمعرفۃ، چاپ دوم، ۱۴۱۷ھ،
  • شیخ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، محقق و مصحح: علی‌اکبر غفاری، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ دوم، ۱۴۱۳ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، مقدمہ: محمد جواد بلاغی، تہران، ناصر خسرو، چاپ سوم، ۱۳۷۲ہجری شمسی۔
  • فخر رازی، محمد بن عمر، مفاتیح الغیب، بیروت، داراحیاء التراث العربی، چاپ سوم، ۱۴۲۰ھ۔
  • فضل‌اللہ، سید محمد حسین، تفسیر من وحی القرآن، بیروت، دارالملاک للطباعۃ و النشر، چاپ دوم، ۱۴۱۹ھ،
  • قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، محقق و مصحح: سید طیب موسوی جزائری، قم، دارالکتاب، چاپ سوم، ۱۴۰۴ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، محقق و مصحح: علی‌اکبر غفاری، محمد آخوندی، تہران، دارالکتب الإسلامیۃ، چاپ چہارم، ۱۴۰۷ھ۔
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، بیروت، دارإحیاء التراث العربی، چاپ دوم، ۱۴۰۳ھ۔
  • مسعودی، علی بن حسین، اثبات الوصیۃ للإمام علی بن أبی طالب، قم،‌ انتشارات انصاریان، چاپ سوم، ۱۳۸۴ہجری شمسی۔